یہاں اس غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے کہ صحیح دوڑ اور کھلاڑیوں کی ریس میں بڑا فرق ہے۔ صحیح دوڑ وہ ہوتی ہے جس میں آپ سوگز دوڑنے کے بعد پھر سوگز پیدل چلتے ہیں، اسی طرح باری باری دوڑ کر اور چل کر اسے مکمل کرتے ہیں۔ یہ دوڑ آہستہ آہستہ ہوتی ہے۔
بیسویں صدی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی برکات مثلاً موٹر گاڑیوں ، میکانکی اور برقی مشینوں اور آلات کے روز افزوں استعمال نے طرزِ حیات کو سراسر بدل دیا ہے۔ صنعتوں کی وجہ سے کام ایک ہی جگہ پر کھڑے کھڑے یا بیٹھے بیٹھے ہوتا رہتا ہے۔ جسمانی حرکت بہت کم ہو گئی ہے۔ متموّل اور خوش حال طبقہ جس آرام کوشی کی زندگی بسر کرتا ہے اس کا تو ذِکر ہی کیا، مزدور اور غریب آدمی بھی ایک اسٹاپ سے دوسرے اسٹاپ تک پیدل چلنے کی زحمت گوار نہیں کرتا۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ جسم بے ڈول ہوتے جا رہے ہیں۔ قلب کے امراض کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ہضم بگڑ گئے ہیں، سینے کم زور ہو گئے ہیں راتوں کی نیندیں اُڑ گئی ہیں۔ جسے دیکھو اسپرین ، نوولجین اور ویلیم گولیاں کھا رہا ہے ۔ان سب باتوں کا اگر کوئی ایک سبب ہو سکتا ہے تو وہ جسم کی بے حرکت ہے اور جسم کی بے حرکت کا سبب علم صحت سے ناواقفیت یا اس کی ناقدر شناسی ہے۔ لوگ ٹی وی اور فلم کے ڈائیلاگ پر کان دھرتے ہیں اور انھیں دل میں جگہ دیتے ہیں لیکن اگر معالج ان کی زندگی کی سب سے قیمتی شے صحت کے بارے میں مشورہ دیتا ہے ۔ تو اس میں دِل چسپی نہیں لی جاتی۔اگر کسی کو ورزش کی قدر و قیمت کا صحیح احساس ہو جائے تو وہ اسے عبادت کی طرح فرض جاننے لگے گا۔ ورزش ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے جسم کے پٹھے ٹھیک کام کرتے ہیں۔ ورزش کی وجہ سے آپ کی انگلیوں کی پوروں تک دوران خون میں باقاعدگی پیدا ہوتی ہے، پھیپھڑوں کو تقویت حاصل ہوتی ہے، نظام ہضم باقاعدہ اور مؤثر ہو جاتا ہے اور ان سب چیزوں کا مجموعی اثر آپ کے ذہن اور آپ کی شخصیت پر پڑتا ہے ۔
دوڑ آسان ترین اور بلا خرچ ورزش:ورزش کی کئی اقسام ہیں۔ کھیل مثلاً ہاکی ، فٹ بال وغیرہ کشتی ، تیراکی ، ٹینس ، اسکواش، لیکن ان کے لیے شوق، وقت اور پیسے کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اور ان کے اور بھی کئی لوازم ہیں۔ سب سے آسان ، سب سے کم قیمت اور سب سے کم وقت کی ورزش دنیا میں اگر کوئی ہے تو وہ دوڑ ہے ۔ کوئی رُت ہو، کوئی موسم ہو، کوئی عمر ہو، آپ پارک میں، اسکول کے میدان میں، سڑک پر اور اگر یہ بھی نہیں تو گھر کے صحن ہی میں دوڑ لگا سکتے ہیں۔ یورپ اور امریکا میں جن لوگوں کو اس کی قدر معلوم ہوتی ہے وہ صبح یا شام جماعتوں اور گروہوں میں پارکوں ، میدانوں اور خالی سڑکوں پر دوڑتے نظر آتے ہیں۔معقول پروگرام کی ضرورت ہے:انسان کی زندگی معین ہے اور اس کا انحصار بلکہ اس کی تمام ترمسرتوں اور کام یابیوں کا انحصار صحت پر ہے۔ اپنی صحت کو بلائیے پھُسلائیے نہیں۔ اس سے خلوص کا معاملہ کیجیے۔ پہلے آپ ایک معقول پروگرام بنا لیجیے۔ معقول اِس لیے کہ آپ اپنے وقت ‘فرصت ‘عمر وغیرہ کے مسائل پر غور کر کے ایک قابل عمل منصوبہ بنائیے۔ یہ کام دن دو دن کا نہیں عمر بھر کا ہے۔ اگر قلب علیل ہو تو مہینہ بھر میں ہمیشہ کے لیے تن درست نہیں ہو سکتا۔ اگر سینہ کم زور ہے تو چند دِن کی دوڑ سے پھیپھڑوں کی کایا نہیں پلٹ سکتی ، اسے باقاعدگی سے کرنا پڑے گا۔ مگر اس میں ایسی سخت پابندیاں نہیں۔ آپ چاہیں تو روزانہ کے بجائے ہر دوسرے دن دوڑ لگا سکتے ہیں۔ صبح اور شام بجائے صرف صبح یا شام کو دوڑ سکتے ہیں۔ گھنٹے کے بجائے آدھ گھنٹا خرچ کر سکتے ہیں۔فاصلہ کم کیجیے:اگر آپ کا قلب کم زور ہے ، سینے کی شکایات رہتی ہیں، ٹانگوں یا پاؤں میں کبھی کوئی تکلیف رہی ہے تو پہلے اپنے معالج سے مشورہ کر لیجیے۔ آپ کو یہ بتائیں گے کہ کتنی تکان آپ ابتدا میں برداشت کر سکیں گے۔ ٹانگوں یا پاؤں یا ٹخنے کی تکالیف میں بھی آپ کو دوڑ سے قبل کی ورزش تجویز کریں گے۔ یہ احتیاط اس معقول پروگرام کا لازمی حصہ ہے جس کا ذِکر کیا جا چکا ہے ۔صحیح دوڑ ہوتی کیا ہے؟:یہاں اس غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے کہ صحیح دوڑ اور کھلاڑیوں کی ریس میں بڑا فرق ہے۔ صحیح دوڑ وہ ہوتی ہے جس میں آپ سوگز دوڑنے کے بعد پھر سوگز پیدل چلتے ہیں، اسی طرح باری باری دوڑ کر اور چل کر اسے مکمل کرتے ہیں۔ یہ دوڑ آہستہ آہستہ ہوتی ہے۔ایک ماہر معالج کے مشورے:اگر چہ بہ ظاہر یہ سادہ اور آسان کام ہے ۔ لیکن مشورہ اس میں بھی مفید ثابت ہو گا۔ اب ہم آپ کو نیویارک ہاسپٹل کے ڈاکٹر رابرٹ اسرائیل ایم ۔ڈی کے مشوروں سے متعارف کراتے ہیں۔ ڈاکٹر موصوف کھلاڑیوں کے معالج ہیں اور خود بھی صبح کی دوڑ کے عادی ہیں۔ڈاکٹر اسرائیل نےصحیح دوڑ کے لیے چند باتوں پر زور دیا ہے وہ ہیں: مناسب جوتوں کی فراہمی، بدن گرمانے کی ورزشیں، دوڑ کا خوب صورت اسٹائل، اور دوڑ میں تدریج کا اصول۔جوتوں کے معاملے میں فیاضی سے کام لیجئے: دوڑ میں واحد سامان جس کی آپ کو ضرورت ہو گی جوتے ہیں۔ اگر جوتے پاؤں کے عین مطابق اور آرام دہ ہوں تو دوڑ بے ضرر اور صحت بخش ہو گی۔ نصف گھنٹے میں آپ کا پاؤں تقریباً 3 ہزار مرتبہ زمین پر لگے گا۔ آرام دہ جوتا ہر بار پاؤں کی زمین پر ضرب کو جذب کرے گا ۔ تنگ جوتا یا بہت ہی فِٹ جوتا ٹھیک نہیں رہتا کیوں کہ پاؤں گرم ہو کر کسی قدر پھیل جاتے ہیں اورپھر وہ جوتا جو بہت ہی فٹ ہو پاؤں میں آبلے پیدا کر سکتا ہے۔ اگر کبھی آبلے آ بھی جائیں تو نائیلون کے موزے بدل کر سُوتی یا اُونی موزے استعمال کیجئے۔
بدن گرمانے کی ورزشیں:ڈاکٹر اسرائیل دوڑ سے پہلے چند منٹ کی بدن کو گرمانے کی ورزشوں کو ضروری سمجھتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کھلاڑی میدان میں آتے ہی طرح طرح کی ورزشی حرکات سے پہلے اپنے بدن کو گرم کرتے ہیں۔ طبی ّ لحاظ سے اس کا مقصدہوتا ہے کہ اگر آپ کسی چیز پر یک لخت زور ڈالیں تو وہ ٹوٹ جائے گی لیکن اگر وہی طاقت بتدریج استعمال کریں تو وہ چیز نہیں ٹوٹے گی۔ قدرت نے پٹھوں میں لچک کی گنجائش رکھی ہے۔ بدن کے گرماؤ سے وہ مناسب حد تک پھیل جاتے ہیں اور پھر دوڑ لگانے سے ان پر یک لخت دباؤ نہیں پڑتا۔اسٹائل کی ضرورت:اسٹائل کا تعلق اگر چہ خوب صورتی اور خوش ذوقی سے بھی ہے، لیکن یہاں اس کا مقصد خالصتہً ، طبی ہے، لمبے لمبے ڈگ بھرنا ، دائیں اور بائیں طرف لہک لہک کر دوڑنا ، یا کمر میں خم ڈال سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے پاؤں میں موچ آ جائے ، ہو سکتا ہے بعد میں آپ کی کمر میں درد پیدا ہو ۔ اس لیےآپ فطری طریقے سے اپنے قد کے مطابق قدم اُٹھا کر دوڑئیے۔ بدن کو اکڑائیے نہیں۔ کمر کو سیدھا اور سر کو اُونچا رکھیے۔دوڑ میں درد بھی ہوتا ہے :دوڑ میں آپ اپنے بدن سے ایک زائد مطالبہ کرتے ہیں۔ اس سے آپ کے بدن کے تمام پٹھے عام حالات کی نسبت کئی گنا زیادہ حرکت کرتے ہیں۔ لہٰذا درد تو ہو گا مگر یہ درد آپ کی طاقت کو بتدریج بڑھائے گا۔ اسے بالکل ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ البتہ جن احتیاطوں کا ذکر کیا گیا ہے ان پر عمل کرنے سے اس میں کمی آسکتی ہے ۔ اس مسئلے میں ایک بات اور قابل غور ہے۔ اگر آپ کو درد ستاتا ہے تو پہلے ہی دن معالج کے پاس زحمت نہ کیجئے ۔ تین دن تک احتیاطی تدابیر پر عمل کر کے دیکھیے۔ اگر کم ہو جائے تو بہتر اور اگر برابر بڑھتا چلا جائے تو پھر اپنے معالج سے مشورہ کیجئے۔بتدریج کا اصول قائم رکھیے:دوڑ لگانے سے پہلے اس بات پر غور کر لیا جائے کہ پہلے دن آپ کس قدر فاصلے تک دوڑ کو برداشت کر سکیں گے ۔ اگر آپ کو قلب کی تکلیف رہتی ہو تو پہلے روز دوڑ اور پیدل چلنے کا فاصلہ کم سے کم رکھیے۔
کئی دن تک اسی پر قائم رہیے اور پھر آہستہ آہستہ بڑھائیے مثلاً سوگز دوڑ اور سوگز پیدل چلنا ، اس کو ایک مرحلہ قرار دے لیجئے۔ اپنی عمر اور جسمانی حالت کے مطابق ایسے ایک دو مرحلوں سے شروع کیجئے اور اسے بہ تدریج ایک میل تک (آنا جانا دونوں شامل) لے جائیے۔ اگر عمر کم ہے تو دو میل بھی کوئی بات نہیں ۔ بہر کیف اس کا انحصار آپ کی قوت برداشت پر ہے۔ تیز دوڑنے کی کوشش نہ کیجئیے۔
جسم کے اشاروں پر دھیان دیجئے
ہمارے جسم میں قدرت نے یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ اپنی اہلیت یا پیش آنے والے خطرے کو محسوس کر کے اشارے دیتا ہے۔ اگر دوڑتے ہوئے آپ کا جسم کہے کہ اب بس، اب مجھ سے نہیں دوڑا جاتا تو اس اشارے پر دھیان دیجئے۔ یہ آپ کے حق میں بہتر ہو گا۔ نزلہ زکام یا کھانسی میں دوڑ کو متوی رکھیے۔ صحت مند ہونے پر دوڑئیے۔ بدن میں حرارت محسوس ہو تو بالکل نہ دوڑئیے۔ دوڑ بہر حال صحت کی حالت میں کرنی مفید ہے۔ دوڑ کے ختم پر آخری پانچ چھے منٹ ضرور پیدل چلیے کہ سانس معمول پر آ جائے دوڑ کے فوراً بعد پنکھا جھلنا، یا ٹھنڈا پانی پینا اچھا نہیں ہوتا۔ اور نہ فوراً کپڑے بدلے جائیں۔
اسے طریقہ حیات بنا لیجئے
زندگی اللہ تعالی کی طرف سے ایک انمول نعمت ہے اور اس کا بہترین سرمایہ صحت ہے ۔ اس بہترین سرمائے کو آپ مسلسل اور باقاعدہ دوڑ سے قائم و دائم رکھ سکتے ہیں۔ اسے اپنا طریقہ حیات بنائیے۔ یاد رکھیے یہ ایک اچھی اور پسندیدہ عادت ہے۔ آپ کے بچے بھی آپ کو دیکھ کر اس کے عادی ہوں گے۔ اس طرح آپ نے صرف اپنی صحت بلکہ اپنی اولاد کی اور ایک لحاظ سے اگلی نسل کی صحت کو بہتر بنانے کا کریڈٹ پائیں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں